Tuesday, 9 May 2017

امتِ مسلمہ میں اتحاد اور اس کی ضرورت

بسم اللہ الرحمن الرحیم امتِ مسلمہ میں اتحاد اور اس کی ضرورت امان اللہ باجوڑی bajauri9292@gmail.com اتحاد اتحاد باب افتعال سے نکلا ہے جس کا معنی ہے’’یگانگت،ملاپ اور محبت‘‘۔اتحاد چوں کہ ’’احد‘‘ سے مشتق ہے اس لیے اعیان میں سے اس کا استعمال صرف اللہ تعالی کے لیے بطورِ صفت ہوسکتا ہے۔(۱) اصطلاح میں اتحاد کا مطلب ہے’’متعدد چیزوں کا ایک ہوجانا‘‘۔اسی وجہ سے متکلمین کے ہاں اتحاد کی دو قسمیں ہیں:۔اول:حقیقۃً دو چیزوں کا ایک ہوجانا ،دوم :مجازا باعتبار صورت دو چیزوں کا مل جانا۔(۲) صوفیاءِ کرام سے اتحاد کی دو تعریفیں منقول ہیں:۔اول:مخلوق اور خالق کا وصال(یہ تعریف از روئے شریعت بالکل باطل ہے)،دوم:رضائے مخلوق کا رضائے خالق میں مدغم ہوجانا۔(۳) اسلام اور اتحاد جب تک دنیا کو اسلام کا سہارا نہیں ملا تھا قومیت و علاقیت کے نام قتلِ عام زوروں پر تھا،امن و آشتی عنقاء ہوچکی تھی، چھوٹے موٹے ٹکڑوں میں بٹے ہوئے انسان انحطاط و تنزلی میں زندگی گزار رہے تھے،ہر قوم و قبیلے کا اپنا بت اور اپنی ہی عبادت گاہ تھی،کہیں دو قوموں کے مزاج میں ملاپ نہ تھا،عیسائیت جو ایک متحدمذہب تھا وہ بھی ’’لوتھر ‘‘سے شکست کھا نے کے بعد فرقوں میں بٹ گئی۔یہود خود غلامی کا شکار تھے،ایران شاہ پرستی اور قوم پرستی کا شکار تھا،عربوں کا گودہ باہمی لڑائیوں میں ضائع ہوگیا تھا۔مجموعی طور پر انسانیت کی کشتی برمودہ تکون میں پھنس چکی تھی۔ایسا زمانہ تھا کہ قرآن نے کہا’’اور تم آگ کے کنارے کھڑے تھے‘‘۔(۴) لیکن آفتابِ توحید کے طلوع ہوتے ہی تفریق و انشقاق کے بت اوندھے منہ گر گئے ،عصبیت کی آگ میں کوئلہ بن جانے والے معاشرے میں اسلام نے ’’ وحدہ لاشریک‘‘کی ذات پر عالمگیر یک جہتی قائم کردی اور رنگ و نسل،علاقائی ،لسانی اور برادری کا فرق منوں مٹی تلے دن گیا۔ایک دوسرے کے کھوپڑیوں میں شراب پینے کی رغبت رکھنے والے بھائی بھائی بن گئے،جیسے کہ ارشادِ خداوندی ہے’’اور یاد کرو اللہ کی نعمت کو جب تم دشمن تھے ،پس اللہ تعالی نے تمھارے دلوں میں محبت ڈال دی اور تم اللہ کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے‘‘۔(۵)اس لیے اسلام آداقی مذہب اور کامیابی کی کسوٹی قرار پائی اور ارشاد ہوا’’بے شک اللہ کے ہاں تو دین اسلام ہی ہے‘‘۔(۶)وجہ یہ ہے کہ اسلام ایک ایسی اکائی ہے جو تقوی کے علاوہ تمام امتیازات کو پسِ پشت ڈالتا ہے،چناں چہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا’’خبردار تمھارا رب ایک ہے،تمھارا والد(آدم)ایک ہے،کسی عربی کو کسی عجمی پر اور نہ ہی کسی عجمی کو کسی عربی پر ،کالے کو سرخ پر اور نہ ہی سرخ کو کالے پرتقوی کے علاوہ کوئی فضیلت حاصل ہے۔اللہ تعالی کے ہاں تم میں سے زیادہ قابلِ تکریم وہ ہے جو زیادہ تقوی والا ہے‘‘۔(۷) نبی پاکﷺ کی بعثت تمام پوری انسانیت کی طرف ہوئی ،اللہ تعالی کا ارشاد ہے ’[اور ہم نے تمھیں پورے عالم کی طرف رحمت بنا کر بھیجا‘‘۔(۸)اسی طرح قرآن پاک بھی تمام انسانوں کی ہدایت کے لیے کافی ہے اللہ کا ارشاد ہے’’یہ قرآن پورے عالم کے لیے نصیحت ہے۔(۹) تو اس سے معلوم ہوا کہ اسلامی عقائد ،شریعت ،مصلحتیں،ثقافت اورتاریخ تمام عالم والوں کے لیے اتحاد کی عظیم چھتری ہے۔ اتحاد کا مفہوم اسلام کیاس بے نظیر درسِ اتحاد سے مسلمانوں نے ہمیشہ تعمیر و ترقی اور امن و آشتی کو قائم رکھا ۔جب تک مسلمانوں میں اتحاد رہا تب تک پورا علم عدل و انصاف سے بہرہ مند رہا ۔غزوہ بدر کے موقع پر مسلمانوں میں اتحاد تھا اس لیے فاتح ٹھہرے لیکن احد میں اختلاف نے ظاہری شکست سے دوچار کیا ۔خلفائے راشدین کے زمانے میں کمر توڑدینے واکے فتنوں کو اتحاد و مشورہ سے ختم کیا لیکن جب اختلافات بڑھے تو ہزاروں صحابہ کرام باہمی جنگوں کی نذر ہوگئے۔اسلامی حکومت اندلس،بنو امیہ ،اور تکانِ عثمان کے زمانۂ عروج کو اگر ملاحظہ کیا جائے تو اتحاد ہی کے ذریعے انہوں نے علمی، ثقافتی اور تہذیبی دنیا پرحکمرانی کی ہے،لیکن جب تفریق و انشقاق کے بت گاڑلئے گئے تو تنزلی اور ادبار مسلمانو کا مقدر ٹھہری۔ اتحاد کا مفہوم سمجھنے کے لیے پہلے اختاف کی اقسام سمجھنے ہوں گے ۔چناں چہ اختلاف دو طرح ہوتا ہے:۔اول وہ اختلاف ہے جس جس کی بنیاد اصول و قوقعد پر ہو،یہ اختلاف محض نفسانی اعراض و خواہشات کی تکمیل کے لیے ہوتا ہے۔دوری قسم یہ ہے کہ اجتہادی مسائل میں فقہائے کرام فروعی اختلاف کرتے ہیں،یہ اختلاف اچھا اختلاف ہے یہ صحابہ کے دور سے چلا آرہا ہے ،اس طرح کا اختلاف مقتضائے عقل و دیانت ہے۔ورنہ کسی کی بات کو دلائل کے روشنی میں غلط سمجھنے والا اگر اس پر خاموش رہے تو یہ دین کے ساتھ غداری ہے۔اسی اختلاف کو رحمت سے تعبیر کیا گیا ہے،آپ ﷺ نے فرمایا کہ’’میری امت کا اپس میں اختلاف کرنا رحمت ہے‘‘۔(۱۰)یہ وہی اختلاف ہے جو ائمہ اربعہ میں وقع ہوا ہے ،اس اختلاف کے ہوتے ہوئے اتفاق و اتحاد مطلوب ہے۔الحاد ،استشراق اور بدعات کے مقابلے کے لیے کمر بستہ ہوتے کے لیے ضروری ہے کہ ان اختلافات کو علمی حلقوں تک محدود کردئے جائے۔چناں چہ امام ابو حنیفہ ؒ ان مسائل کے متعلق فرماتے ہیں جو صحابہ کے دور سے مختلف فیہ ہیں’’متضاد اقوال میں سے ایک قول خطاء ہے،مگر اس کا گناہ معاف کردیا گیا ہے‘‘۔(۱۱)امام مالک ؒ فرماتے ہیں ہے’’بعض اقوال خطاء بعض صحیح ہیں،تو اس میں غور و فکر ضروری ہے‘‘۔(۱۲)امام احمد ؒ نے فرمایا’’صحابہ کے اختلاف میں غورو فکر ہی نہیں کرنا چاہئے جس قول کا چاہو اتباع کرو‘‘۔(۱۳)مفتی محمد شفیعؒ فرماتے ہیں’’اگر حالات و معاملات کا صحیح جائزہ لیا جائے تو اختلاف رائے اگر اپنے حدود کے اندر رہیتو وہ کسی کسی جماعت کے لیے مضر نہیں ہے،بلکہ بہت سارے مفید نتائج پیدا کرتا ہے‘‘۔(۱۴) اتحاد کی اہمیت منتشرہ ذرات نے مل کر صحراء کی صورت اختیار کرلی،قطرات نے مل کر طوفان برپا کردیا،جب کہ بڑے سے بڑا موج ساحل پر آکر بکھر جاتا ہے۔اکیلا فرد ایک تنکا ہے لیکن چند افراد مل کر گرتے ہوئے معاشرے کا سہارا بن جاتے ہیں۔اکایوں میں بٹ کر جماعتیں اپنا وجود کھو دیتی ہے لیکن اتحاد سے وہ اپنے بقاء کا راز پا لیتے ہیں۔اٹحاد کے ذریعے ممولے میں شہباز جیسا حوصلہ پیدا پوتا ہے۔پسماندہ اقوام اتحاد کے ذریعے اپنی قابلیت کا لوہا منوا جاتے ہیں،جماعت سے پیوستہ ہر شخص پشت پناہی کے سہارے ’’پراعتماد‘‘رہتا ہے کہ اس قوم و قبیلہ ہر مشکل میں ان کا ہاتھ بٹھائے گااوراسے ہر لمحہ نئی قوت میسر ہوتی رہتی ہے۔جماعت سے مربوط رہنے والوں کی طاقت باہمی نزاع میں ضائع نہیں ہوتی۔یہی درس اسلام بھی دیتا ہے کہ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے تو اپنے بھائیوں کے بیچ صلح کراؤ‘‘۔(۱۵)اس لیے اتحاد چراغ کی طرح نہیں جو صرف اندر روشنی دے بلکہ اتحاد ہو شعاع ہے جو زندگی کے کٹھن مرحلوں میں روشنی فراہم کرتا ہے۔ اسلام محبت و الفت کا مذہب ہے اور محبتوں کا فروغ اتحاد کے مغیر ممکن نہیں،اس لیے اسلامی احکام و ثقافت ،زبان و تاریخ اور خوشی و غمی میں کسی نہ کسی طریقے سے اجتماعیت موجود ہے ۔مسجد ،جہاد ،حج اور زکوۃ اجتماعیت کے مظاہر ہیں،اسلام تفریق و تشتت کے تمام بتوں کو توڑ کر ملتِ واحدہ کا درس دیتا ہے،ارشاد باری تعالی ہے’’اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھام لواور تفقہ بازی نہ کرو‘‘۔(۱۶)ابن مسعودؓ نے اللہ کی رسی سے مسلمانوں کی جماعت مراد لیا ہے۔(۱۷)اسی طرح زمانہ جاپلیت کے جھگڑوں کے بعد باہمی مواخات کو اللہ تعالی نے بڑی نعمت سے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا’’اور یاد کرو اللہ کی نعمت کو جب تم دشمن تھے ،پس اللہ تعالی نے تمھارے دلوں میں محبت ڈال دی۔(۱۸)اسلام تمام مسلمانوں کو ملتِ واحدہ کا درس دے کر ایک دوسرے کے بھائی قرار دیتا ہے ۔ارشاد باری تعالی ہے’’بے شک تمھارا دین ایک ہی دین ہے‘‘۔(۱۹)دوسری جگہ فرمایا’’بلا شبہ تمام مؤمنین بھائی بھائی ہیں۔(۲۰)معلوم ہوا کہ اسلام لانے کے بعد ہر کلمہ گو اتحاد کے اس لڑی میں پرو جاتا ہے جس کی بندھن بھائی چارگی اور محبت ہے’’پس اگر وہ توبہ کرلیں ،نماز قائم کریں اور زکوۃ دے تو وہ تمھارے بھائی ہیں۔(۲۱)ان سب آیات و احادیث سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اسلام میں محمود و آیاز کا صف ایک ہے ،کسی کو کسی پر سوائے تقوی کے کوئی فضیلت نہیں ہے’’زیادہ عزت والا وہ شخص ہے جو زیادہ تقوی والا ہو‘‘۔(۲۲) ایک ہی صف میں کھڑے محمود و آیاز نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز معلم اعظم ﷺ کی ذات ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے،آپ ﷺ کی شخصیت کے اندر وہ تمام صفات بدرجہ اتم موجود تھے جن پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہوسکے،آپنﷺ نے اوس و خزرج میں بے نظیر مؤاخات قئم کردی،میثاقِ مدینہ کے ذریعے بین الاقوامی اتحاد کے اصول وضع کی اور جماعت کو لازم پکڑنے پر زور دیتے ہوئے فرمایا’’اے لوگو!تمھارے اوپر اطاعت اور جماعت لازم ہیں کیوں کہ یہ اللہ کی وہ رسی ہے جس (کواپنانے )کاحکم دیا گیا ہے اور تم جماعت میں جو چیزیں ناپسند کرتے ہو وہ اس سے بہتر ہے جسے تم فرقت میں پسند کرتے ہو‘‘۔(۲۳)ایک جگہ آپﷺ نے جماعت سے منسلک رہنے کے متعلق فرمایا’’مسلمانوں کی جماعت کو لازم پکڑو‘‘۔(۲۴)ایک دفعہ فرمایا’’تمھارے لیے جماعت(کو اختیار کرنا)لازم ہے اور تفرقہ بازیوں سے بچو‘‘۔(۲۵)ایک حدیث میں ارشاد فرمایا ’’مؤمن کی مثال باہمی محبت،رحم اور مہربانی میں ایک جسم کے مانند ہیں ،جب کسی عضو کو تکلیف ہو تو پورا جسم بیقراری میں رات گزارتا ہے‘‘۔(۲۶)اسلام کی عمارت کی مضبوطی اس کے بنیادوں کی مضبوطی پر پر موقوف ہے ،آپﷺ نے فرمایا’’اسلام کی بنیاد تین چیزوں پر ہے:ایمان،نماز اور جماعت‘‘۔(۲۷)ایک اینٹ دوسرے اینٹ کے لیے سہارا ہوتا ہے فرمایا’’مؤمن مؤمن کے لیے اینٹوں کے مانند ہے کہ بعض بعض کو مضبوط کرتے ہیں‘‘۔(۲۸)یہی اتحادکی برکات ہیں کہ جماعت کی کثرت ثواب میں اضافہ کرتی ہے آپ ﷺ نے فرمایا’’دو آدمی ایک سے بہتر ہے اور تین دو سے بہتر ہیں ،اور چار تین سے بہتر ہیں پس تم پر جماعت لازم ہے ،کیوں کہ اللہ تعالی میری امت کو ہدایت ہی پر جمع کرتا ہے‘‘۔(۲۹) معاشرے اکثر وہ لوگ اتحاد اور اجتماعی کانفرنسوں سے الگ رہتے ہیں جو اپنی رائے کو سب سے اعلی سمجھتے ہیں ،وہ یہ نہیں سمجھتے کہ ان کے اس تھوڑے سے اختلاف کی وجہ سے مسلمان فرقوں میں بٹے جارہے ہیں۔حالاں کہ یہ امت کبھی غلط بات پر جمع ہو ہی نہیں سکتے جیسے کہ آپ ﷺ نے فرمایا’’میری امت گمراہی پر جمع نہیں ہوں گے‘‘۔(۳۰)اور’’جماعت پر اللہ کا ہاتھ ہوتا ہے جو (جماعت سے)الگ ہوا اسے آگ میں (بھی)الگ کردیا جائے گا‘‘۔(۳۱)ایک دفعہ آپ ﷺ نے مثال دیتے ہوئے فرمایا’’بے شک شیطان انسان کے لیے بھیڑیا ہے جس طرح بکریوں کے لیے بھیڑیا ہوتا ہے جو تنہا الگ ہونے والی بکری کو کھاتا ہے،پس تم تفرقوں سے بچواور تمھارے لیے لازم ہے کہ جماعت اور مسجد کو لازم پکڑو‘‘۔(۳۲)

No comments:

Post a Comment