
Friday, 2 June 2017
مطالعہ کی اہمیت اور بڑوں کا مطالعہ امان اللہ باجوڑی
مطالعہ کی اہمیت اور بڑوں کا مطالعہ
امان اللہ باجوڑی
bajauri9292@gmail.com
مطالعہ کی اہمیت
بعرض واقفیت کسی چیز کو غور سے دیکھنا اس چیز کا مطالعہ کہلاتا ہے۔ لیکن عرف عام میں مطالعہ کا اطلاق کتاب بینی ہی پر ہوتا ہے۔ حضرت شاہ مسیح اللہ خان شروانیؒ رقم طراز ہے کہ ’’ذہن سے چپھی ہوئی چیزوں کو سمجھنے کے لیے غور و فکر کی محنت کرنا ضروری ہے ۔اول لغوی ،صرفی و نحوی تحقیق کرلے اور پھر ماقبل اور مابعد کے اعتبار سے ترجمہ کرکے مطلب سمجھنا مطالعہ ہے۔
علمی بالیدگی کے لیے اگر مطالعہ کی رغبت ،اشتیاق اور میلان سے روح بیدار ہوجائے تو انسان کو ایک متاعِ بے بہا ہاتھ آجا تا ہے ۔مطالعہ فکر و دانش کی وہ پہلی سیڑھی ہے جہاں انسان اپنی دنیاوی اور اخروی کامیابی کے لیے اپنے افکار میں نمو پیدا کرتا ہے،مثبت مطالعہ میں شبانہ روز مصروف رہنے والوں کی ہرہر ساعت سونے سے قیمتی بن جاتا ہے اور نقوش رفتگان سے کتب بینی کی عظمت،اہمیت اور افادیت کا گوہرِ ابدار ہاتھ آجاتے ہیں۔مطالعہ انسان کے ہر ہر عضو پر اثر انداز ہوتا ہے،دماغ غلط خیالات سے مامون ہوجاتا ہے،انسان زبان درازی اور بد نظری سے بچتا ہے اور انسان صراط مستقیم پر گامزن رہتا ہے۔
عربی کا مشہور مقولہ ہے کہ ’’زمانے میں بہترین دوست کتاب ہے‘‘۔حضرت عمر بن عبد العزیز ؒ فرماتے ہیں کہ ’’میں نے قبر سے زیادہ واعظ ،کتاب سے زیادہ مخلص دوست اور تنہائی سے زیادہ بے ضررساتھی نہیں دیکھا‘‘۔امام رازی ؒ فرماتے ہیں کہ ’’کتابیں انسان کو حیاتِ فانی میں عزت اور حیاتِ دوامی میں ابدی سکون بخشتی ہیں‘‘۔کتاب کیوں کر مخلص دوست نہیں ہوگا کہ وہ سفر و حضر میں قاری کا رفیق ہوتاہے،پریشانیوں میں فروزاں چراغ ہے۔زمانے کے بے وفائیوں سے دل برداشتہ ہونے والے کا مطمح نظر کتاب ہی ہوا کرتا ہے۔
عجیب تماشہ ہے ،ہمارے پاس کھیل کھود کے لیے وقت بہت ہے لیکن کتب بینی کے معاملہ میں ہم کوتاہِ وقت کا شکار ہیں!۔انسان کی حیثیت اس جہاں میں ایک جسم معلق کی طرح ہے جو ہر سانس قبر کی جانب رواں دواں ہے ۔بلآخر جواہر و یاقوت سے قیمتی وقت کے اس خزانے کو لہو ولعب پر صرف کرنا کونسا کار دانشمندانہ ہے؟!ضروری ہے کہ اس قیمتی سرمایہ کو کتب بینی میں صرف کیا جائے کیوں کہ علم ہی مسلمانوں کا خاصہ ہے۔
آج مطالعہ کی انتہائی نایابی ہے،۔امام محمدؒ ،ابن جریرؒ ، امام باقلی ؒ ، ابن جوزیؒ اور ابن حجر عسقلانی ؒ جیسے مایہ ناز مصنفین انگشت بدنداں ہیں کہ مسلمانوں میں مطالعہ پھر کس تاتاری ذہنیت کے آسرے پر ہے!؟۔
اقوال سلف
جس طرح کھیتی کے لیے پانی ضروری ہوتا ہے اسی طرح علم کے لیے مطالعہ ضروری ہے،مطالعہ استعداد و صلاحیتوں میں نمو پیدا کرتا ہے۔علم دریا ہے تو مطالعہ کرنے والا ان میں جواہر تلاش لرتا ہے ،مطالعہ کرنے کے بعد استاد کا سبق خوب ذہن نشین ہوتا ہے،مطالعہ میں ایسی مسرت ہے کہ جس کا پانے والا بادشایت کو ٹھکرا دے۔
حضور پاک ﷺ نے فرمایا کہ’’ ایک باب علم کا سیکھنا چاہئے اس پر عمل کیا ہو یا نہ کیا ہو ہزار رکعت نفل پڑھنے سے افضل ہے‘‘(ابن ماجہ ص۲۰)
حکیم الامت اشرف علی تھانویؒ فرماتے ہیں کہ ’’مطالعہ کی برکت سے استعداد اور فہم پیدا ہوتا ہے ،اس کی مثال ایسی ہے جیسے کپڑا رنگنے کے لیے پہلے اس کو دھو لیا جاتا ہے پھر رنگ کے مٹکے میں ڈالا جاتا ہے اور اگر پہلے نہ دھویا جائے تو کپڑے پر داغ پڑھ جاتے ہیں‘‘۔(دعوات عبدیت ص۷۲،ج۱۴)
مطالعہ مفتاحِ استعداد ہے اگر مطالعہ کی استعداد پیدا ہوگئی تو سبق کو استاد کے بغیر بھی سمجھا لیگا(التبلیغ:ص۷۰،ج۱۴)
امام محمد ؒ رات بھر بے قرار رہتے تھے اور فرماتے تھے ’’میں کیسے سوسکتا ہوں جب کہ عام مسلمان ہم پر تکیہ کرکے سو جاتے ہیں اور اپنے مسائل و معاملات کی گرہ کشائی اور دینی و شرعی رہنمائی کے لیے ہم پر اعتماد کرتے ہیں ۔ایسی صورت میں اگر میں سوجاؤں تو دین کے ضائع ہونے کا خطرہ ہے‘‘
امام غزالی ؒ فرماتے ہیں ’’میری نزدیک صحبت سے تنہائی اچھی ہے ،لیکن پریشان ہونے کا اندیشہ ہے اس لیے کتابوں کا مطالعہ ضروری ہے‘‘۔
علامہ انور شاہ کشمیری ؒ فرماتے ہیں’’میں ہر وقت فکرِ علم میں مستغرق رہتا ہوں سوائے ان اوقات کے جب نیند کا شدید غلبہ ہو‘‘
مولانا آزادمرحوم ؒ رقم طراز ہے’’بارہ سال کی عمر میں میرا یہ حال تھا کہ کتاب لے کر درختوں کے ایک جھنڈ میں بیٹھ جاتا اور کوشش کرتا کہ لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہوں‘‘
رچرڈ اسٹیل کہتا ہے کہ ’’دماغ کے لیے مطالعہ اور جسم کے لیے ورزش ضروری ہے‘‘۔
بڑوں کا مطالعہ
داستانِ سلف ذوقِ مطالعہ اور شوق تصنیف سے پر نظر آتا ہے ۔امام محمد ؒ کو مطالعہ کیں ایسا انہماک ہوتا کہ بسا اوقات کوئی سالام کرتا اور آپ بے خبری میں اسے دعائیں دینے لگ جاتے۔امام مسلم ؒ ایسے استغراق سے مطالعہ کرتے کہ ایک دفعہ مطالعہ کررہے تھے پاس میں کھجور کی ٹوکری رکھی ہوئی تھی ،مطالعہ میں استغراق کی وجہ سے بے خبری میں سارے کھجور کھا لیے ،ادھر مسئلہ مل گیا ادھر ٹوکری خالی ہوگئی جس سے امام مسلم ؒ کی موت بھی واقع ہوگئی۔امام زہری ؒ اتنا مطالعہ فرماتے کہ ایک دفعہ بیوی نے کہا ’’رب کی قسم ہے یہ کتابیں مجھ پر تین سوکنوں سے زیادہ بھاری ہیں‘‘ مولانا عبدالحیؒ نے دورانِ مطالعہ پانی مانگا تو والد محترم کو فکر لاحق ہوئی کہ کس طرح مطالعہ میں پانی کا خیال آیا ،چناں چہ امتحان کے لیے والدنے رنڈی کا تیل بھیجوایا ،مولانا نے اسے فورا پی لیااور احساس تک نہ ہوا۔شیخ محدث دہلویؒ فرماتے ہیں کہ میں رات کو اتنی دیر تک مطالعہ کرتا کہ والد کو رحم آجاتا اور فرماتے کہ کب تک جاگو گے آرام کرو۔مولانا اعزاز علی ؒ سخت بیمار تھے لیکن سرہانے کے پاس کتابیں رکھی ہوتی تھی اور فرماتے کہ’’ میری بیماری کا علاج کتب بینی ہے‘‘۔
آدابِ مطالعہ
مطالعہ کے لیے ضروری ہے کہ کتاب کا انتخاب مشورہ سے کیا جائے،مصنف اور کتاب کے مضامین کو دیکھ کر مطالعہ کرنا چاہئے،جیسے کہ حضور ﷺ نے عمر فاروقؓ کو تورات کے مطالعہ سے روک لیا تھا،سب سے پہلے سیرت النبیﷺ،حیات الصحابہؓ اور دیگر اسلامی علوم و فنون کا مطالعہ کرنا چاہئے۔مطالعہ کرتے وقت قلم و کاغذ پاس رکھنا چاہئے تاکہ اہم جگہوں کو ساتھ ساتھ نشان زدہ کیا جاسکے اور پھر بعد میں تلاش کرنے میں آسانی ہو۔ اسی طرح مطالعہ برائے مطالعہ نہ ہو بلکہ اس پر عمل کرنا بھی ضروری ہے،مطالعہ کے تمام آلات مثلا کتاب ،ٹپائی، قلم وغیرہ سب کا ادب کرنا چاہئے۔کیوں کہ
با ادب با نصیب بے ادب بے نصیب

Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment