
Friday, 2 June 2017
مولانا سلیم اللہ خان ؒ کا لفظ لفظ موتی
مولانا سلیم اللہ خان ؒ کا لفظ لفظ موتی
مولانا محمد حسان
حضرت شیخ چھ دہائیوں سے زیادہ تدریس سے وابستہ رہے ،ان کا لفظ لفظ موتی ہے ۔ہم نے حضرت شیخ کے آخری سال کے دروس سے کچھ موتیاں چنیں ہیں ، آپ بھی پڑھ لیں۔
۱۔علماء کو تواضع اختیار کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔۲۔اگر آپ سے کوئی کہے کہ بڑا عالم کون ہے؟ تو کہو ’’اللہ‘‘ہے۔۳۔تعلیم کے لیے ذکر اور تلاوت موقوف کرایا جاسکتا ہے ۔۴۔ایک وقت مقرر کر کے اپنا محاسبہ کرو ،حاسبو اقبل أن تحاسبو۔۵۔آج شکایت دوسروں سے ہوتا ہے اپنے نفس سے شکایت نہیں کرتے۔۶۔اگر آپ نیک ہے تعلیم اگر نہ بھی دے تو بھی آپ دوسرے لوگوں کو فائدہ ہوگا ۔۷۔دنیاوی مفاد کے لیے اور لالچ کے لیے اُمراء کے پاس علماء نہ جایا کرے ورنہ یہ اپنے آپ کو ضائع کرنے والے ہوں گے۔۸۔اُمراء کے پاس علماء کے جانے سے علم کی توہین ہوتی ہے ۔۹۔دنیاء کی بقاء پانچ چیزوں پر ہے:(الف)دین(ب)نفس(ج)نسب(د)علم(ہ)عقل۔ ۱۰۔مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب ؒ کی تفسیر بہت زبردست ہے اس کے مقابلہ کی کوئی تفسیر نہیں ۔(یہ حضرت مفتی صاحب ریڈیو پر درس قرآن دیتے تھے وہ جمع ہو کر پھر بالآخر ۸جلدوں میں چھپ کر منظر عام پر آئی)۔۱۱۔جو شخص خلوص نیت سے شہادت طلب کرے اللہ ضرور شہادت نصیب فرمائیں گے ۔۱۲۔رات کو سورۂ ملک کی تلاوت کرنے والا سوال و جواب سے محفوظ رہے گا۔۱۳۔مفتی کا کام یہ ہے کہ دیانت سے فیصلہ کرے ۔۱۴۔اگر لوگ قرأت مسنونہ میں اعتراض کرے اس کا کوئی اعتبار نہیں ۔ ۱۵۔محدث کے یا امیر کے ناراضگی کو دور کرنے کے لیے ان کے سامنے دوزانوں ہو کر بیٹھیں اس سے ان کا غصہ ختم ہو جائے گا۔ ۱۶۔عورتوں کے لیے تعلیم کا اہتمام ہونا چاہیے لیکن فتنہ سے بچنے کی کوشش ضرور ہو۔۱۷۔مخلوط تعلیم میں نقصانات زیادہ ہے جو کہ درست نہیں۔۱۸۔عورتوں کی تعلیم میں نصاب کاخیال رکھنا چاہیے اور ان کی ضروریات کا بھی خیال رکھنا چاہیے ،ان کے نصاب میں اولاد کی تربیت شوہر کے حقوق ماں باپ کے حقوق داخل کرنا چاہیے۔۱۹۔حدیث قدسی: أنا عند منکسرۃ القلوب۔ ۲۰۔تلاوت قرآن ذکر سے افضل ہے۔۲۱۔تخلی عن الرذائل تحلی من الفضائل ہو تو اس کے بعد اگر آپ بیان کریں گے تو آپ کا بیان میں اثر ہوگا۔۲۲۔وضو کے اندر پانی کے اسراف کے ساتھ وقت کا بھی اسراف ہوتا ہے ،دو منٹ کے بجائے آپ دس منٹ لگائیں یہ اسراف ہے۔۲۳۔روح کے متعلق صرف اتنا جاننا کافی ہے ،حقیقت میں جانے کی ضرورت نہیں’’اللہ کے حکم سے بدن میں ایک چیز آجاتی ہے انسان اس کی وجہ سے زندہ ہوجاتا ہے جب چلا جاتا ہے تو انسان مرجاتا ہے ‘‘۔۲۴۔آدمی اگر اپنی نماز صحیح کرنے کی کوشش کرتا ہے تو ایک وقت آئے گا کہ اس کی نماز میں حسن پیدا ہوگا ۔۲۵۔جب انسان تلاوت کے معانی میں غوروفکر کرے تو وسوسہ جو نماز میں آتا ہے وہ ختم ہو جائے گا ،خشو ع و خضوع پیدا ہوگا اس وقت نہ اختیاری نہ غیر اختیاری وسوسہ آئے گا۔۲۶۔زبان پر مسواک ملنے سے معدہ سے فضلات اور بخارات ختم ہو جاتے ہیں ۔اسی طرح منہ میں بدبو پیدا نہیں ہوتی ۔۲۷۔جنت کا شوق ہونا چاہیے جو اللہ کی رضا کا مظہر ہے ۔۲۸۔جہنم سے پناہ مانگنی چاہیے جو عذاب الہی کا مظہر ہے ۔
۲۹۔یسر حاصل کرنے کے لیے عسر میں انفاق فی سبیل اللہ کیا جائے سیجعل اللہ بعد عسر یسرا۔۳۰۔قرینہ نابینا کی لاٹھی ہے ۔۳۱۔علمانے لکھا ہے کہ پریشان کن شخص اس دعا کو مانگے اس کی پریشانی ختم ہو جائے گی ،ربنا اٰتنا من لدنک رحمۃ وھیء لنا من امرنا رشدًا۔۳۲۔جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چوبیس ہزار مرتبہ وحی لے کر آئے۔
اللہ ہم سب کو حضرت شیخ کے حقیقی شاگرد ومتعلق بنائے۔

مطالعہ کی اہمیت اور بڑوں کا مطالعہ امان اللہ باجوڑی
مطالعہ کی اہمیت اور بڑوں کا مطالعہ
امان اللہ باجوڑی
bajauri9292@gmail.com
مطالعہ کی اہمیت
بعرض واقفیت کسی چیز کو غور سے دیکھنا اس چیز کا مطالعہ کہلاتا ہے۔ لیکن عرف عام میں مطالعہ کا اطلاق کتاب بینی ہی پر ہوتا ہے۔ حضرت شاہ مسیح اللہ خان شروانیؒ رقم طراز ہے کہ ’’ذہن سے چپھی ہوئی چیزوں کو سمجھنے کے لیے غور و فکر کی محنت کرنا ضروری ہے ۔اول لغوی ،صرفی و نحوی تحقیق کرلے اور پھر ماقبل اور مابعد کے اعتبار سے ترجمہ کرکے مطلب سمجھنا مطالعہ ہے۔
علمی بالیدگی کے لیے اگر مطالعہ کی رغبت ،اشتیاق اور میلان سے روح بیدار ہوجائے تو انسان کو ایک متاعِ بے بہا ہاتھ آجا تا ہے ۔مطالعہ فکر و دانش کی وہ پہلی سیڑھی ہے جہاں انسان اپنی دنیاوی اور اخروی کامیابی کے لیے اپنے افکار میں نمو پیدا کرتا ہے،مثبت مطالعہ میں شبانہ روز مصروف رہنے والوں کی ہرہر ساعت سونے سے قیمتی بن جاتا ہے اور نقوش رفتگان سے کتب بینی کی عظمت،اہمیت اور افادیت کا گوہرِ ابدار ہاتھ آجاتے ہیں۔مطالعہ انسان کے ہر ہر عضو پر اثر انداز ہوتا ہے،دماغ غلط خیالات سے مامون ہوجاتا ہے،انسان زبان درازی اور بد نظری سے بچتا ہے اور انسان صراط مستقیم پر گامزن رہتا ہے۔
عربی کا مشہور مقولہ ہے کہ ’’زمانے میں بہترین دوست کتاب ہے‘‘۔حضرت عمر بن عبد العزیز ؒ فرماتے ہیں کہ ’’میں نے قبر سے زیادہ واعظ ،کتاب سے زیادہ مخلص دوست اور تنہائی سے زیادہ بے ضررساتھی نہیں دیکھا‘‘۔امام رازی ؒ فرماتے ہیں کہ ’’کتابیں انسان کو حیاتِ فانی میں عزت اور حیاتِ دوامی میں ابدی سکون بخشتی ہیں‘‘۔کتاب کیوں کر مخلص دوست نہیں ہوگا کہ وہ سفر و حضر میں قاری کا رفیق ہوتاہے،پریشانیوں میں فروزاں چراغ ہے۔زمانے کے بے وفائیوں سے دل برداشتہ ہونے والے کا مطمح نظر کتاب ہی ہوا کرتا ہے۔
عجیب تماشہ ہے ،ہمارے پاس کھیل کھود کے لیے وقت بہت ہے لیکن کتب بینی کے معاملہ میں ہم کوتاہِ وقت کا شکار ہیں!۔انسان کی حیثیت اس جہاں میں ایک جسم معلق کی طرح ہے جو ہر سانس قبر کی جانب رواں دواں ہے ۔بلآخر جواہر و یاقوت سے قیمتی وقت کے اس خزانے کو لہو ولعب پر صرف کرنا کونسا کار دانشمندانہ ہے؟!ضروری ہے کہ اس قیمتی سرمایہ کو کتب بینی میں صرف کیا جائے کیوں کہ علم ہی مسلمانوں کا خاصہ ہے۔
آج مطالعہ کی انتہائی نایابی ہے،۔امام محمدؒ ،ابن جریرؒ ، امام باقلی ؒ ، ابن جوزیؒ اور ابن حجر عسقلانی ؒ جیسے مایہ ناز مصنفین انگشت بدنداں ہیں کہ مسلمانوں میں مطالعہ پھر کس تاتاری ذہنیت کے آسرے پر ہے!؟۔
اقوال سلف
جس طرح کھیتی کے لیے پانی ضروری ہوتا ہے اسی طرح علم کے لیے مطالعہ ضروری ہے،مطالعہ استعداد و صلاحیتوں میں نمو پیدا کرتا ہے۔علم دریا ہے تو مطالعہ کرنے والا ان میں جواہر تلاش لرتا ہے ،مطالعہ کرنے کے بعد استاد کا سبق خوب ذہن نشین ہوتا ہے،مطالعہ میں ایسی مسرت ہے کہ جس کا پانے والا بادشایت کو ٹھکرا دے۔
حضور پاک ﷺ نے فرمایا کہ’’ ایک باب علم کا سیکھنا چاہئے اس پر عمل کیا ہو یا نہ کیا ہو ہزار رکعت نفل پڑھنے سے افضل ہے‘‘(ابن ماجہ ص۲۰)
حکیم الامت اشرف علی تھانویؒ فرماتے ہیں کہ ’’مطالعہ کی برکت سے استعداد اور فہم پیدا ہوتا ہے ،اس کی مثال ایسی ہے جیسے کپڑا رنگنے کے لیے پہلے اس کو دھو لیا جاتا ہے پھر رنگ کے مٹکے میں ڈالا جاتا ہے اور اگر پہلے نہ دھویا جائے تو کپڑے پر داغ پڑھ جاتے ہیں‘‘۔(دعوات عبدیت ص۷۲،ج۱۴)
مطالعہ مفتاحِ استعداد ہے اگر مطالعہ کی استعداد پیدا ہوگئی تو سبق کو استاد کے بغیر بھی سمجھا لیگا(التبلیغ:ص۷۰،ج۱۴)
امام محمد ؒ رات بھر بے قرار رہتے تھے اور فرماتے تھے ’’میں کیسے سوسکتا ہوں جب کہ عام مسلمان ہم پر تکیہ کرکے سو جاتے ہیں اور اپنے مسائل و معاملات کی گرہ کشائی اور دینی و شرعی رہنمائی کے لیے ہم پر اعتماد کرتے ہیں ۔ایسی صورت میں اگر میں سوجاؤں تو دین کے ضائع ہونے کا خطرہ ہے‘‘
امام غزالی ؒ فرماتے ہیں ’’میری نزدیک صحبت سے تنہائی اچھی ہے ،لیکن پریشان ہونے کا اندیشہ ہے اس لیے کتابوں کا مطالعہ ضروری ہے‘‘۔
علامہ انور شاہ کشمیری ؒ فرماتے ہیں’’میں ہر وقت فکرِ علم میں مستغرق رہتا ہوں سوائے ان اوقات کے جب نیند کا شدید غلبہ ہو‘‘
مولانا آزادمرحوم ؒ رقم طراز ہے’’بارہ سال کی عمر میں میرا یہ حال تھا کہ کتاب لے کر درختوں کے ایک جھنڈ میں بیٹھ جاتا اور کوشش کرتا کہ لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہوں‘‘
رچرڈ اسٹیل کہتا ہے کہ ’’دماغ کے لیے مطالعہ اور جسم کے لیے ورزش ضروری ہے‘‘۔
بڑوں کا مطالعہ
داستانِ سلف ذوقِ مطالعہ اور شوق تصنیف سے پر نظر آتا ہے ۔امام محمد ؒ کو مطالعہ کیں ایسا انہماک ہوتا کہ بسا اوقات کوئی سالام کرتا اور آپ بے خبری میں اسے دعائیں دینے لگ جاتے۔امام مسلم ؒ ایسے استغراق سے مطالعہ کرتے کہ ایک دفعہ مطالعہ کررہے تھے پاس میں کھجور کی ٹوکری رکھی ہوئی تھی ،مطالعہ میں استغراق کی وجہ سے بے خبری میں سارے کھجور کھا لیے ،ادھر مسئلہ مل گیا ادھر ٹوکری خالی ہوگئی جس سے امام مسلم ؒ کی موت بھی واقع ہوگئی۔امام زہری ؒ اتنا مطالعہ فرماتے کہ ایک دفعہ بیوی نے کہا ’’رب کی قسم ہے یہ کتابیں مجھ پر تین سوکنوں سے زیادہ بھاری ہیں‘‘ مولانا عبدالحیؒ نے دورانِ مطالعہ پانی مانگا تو والد محترم کو فکر لاحق ہوئی کہ کس طرح مطالعہ میں پانی کا خیال آیا ،چناں چہ امتحان کے لیے والدنے رنڈی کا تیل بھیجوایا ،مولانا نے اسے فورا پی لیااور احساس تک نہ ہوا۔شیخ محدث دہلویؒ فرماتے ہیں کہ میں رات کو اتنی دیر تک مطالعہ کرتا کہ والد کو رحم آجاتا اور فرماتے کہ کب تک جاگو گے آرام کرو۔مولانا اعزاز علی ؒ سخت بیمار تھے لیکن سرہانے کے پاس کتابیں رکھی ہوتی تھی اور فرماتے کہ’’ میری بیماری کا علاج کتب بینی ہے‘‘۔
آدابِ مطالعہ
مطالعہ کے لیے ضروری ہے کہ کتاب کا انتخاب مشورہ سے کیا جائے،مصنف اور کتاب کے مضامین کو دیکھ کر مطالعہ کرنا چاہئے،جیسے کہ حضور ﷺ نے عمر فاروقؓ کو تورات کے مطالعہ سے روک لیا تھا،سب سے پہلے سیرت النبیﷺ،حیات الصحابہؓ اور دیگر اسلامی علوم و فنون کا مطالعہ کرنا چاہئے۔مطالعہ کرتے وقت قلم و کاغذ پاس رکھنا چاہئے تاکہ اہم جگہوں کو ساتھ ساتھ نشان زدہ کیا جاسکے اور پھر بعد میں تلاش کرنے میں آسانی ہو۔ اسی طرح مطالعہ برائے مطالعہ نہ ہو بلکہ اس پر عمل کرنا بھی ضروری ہے،مطالعہ کے تمام آلات مثلا کتاب ،ٹپائی، قلم وغیرہ سب کا ادب کرنا چاہئے۔کیوں کہ
با ادب با نصیب بے ادب بے نصیب

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خانگی زندگی مولاناحسن تاج فاضل جامعہ فاروقیہ کراچی
خانگی زندگی کسی بھی معاشر ے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ،اسی سے خاندانوں کے خاندان جنم لیتے ہیں جو بالآخر مستقل معاشرے کی شکل اختیار کر لیتے ہیں ،جس کا اپنا تہذیب و تمدن ہوتا ہے۔ اس خانگی زندگی کی اساس دو رکنی بندھن ہے۔جب حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے صدقے اسلامی معاشرے کی تعمیر نو کا مرحلہ آیا تو خانگی زندگی کی گتھیوں کو سلجھانے کے لیے ایسے عملی نمونے کی ضرورت تھی ،جس میں مردوزن کے حقوق کا توازن برقرار رہتا اوراس کی بدولت جہالت کی بھینٹ چڑھنے والی مظلوم نسوانیت کو ا س کا حقیقی مقام مل جاتا ۔یہ عملی نمونہ دو کرداروں سے وجود میں آیا ۔
۱۔مردانہ کردار: جس نے نسوانی کج اداؤں کو بڑی فراخ دلی سے برداشت کرتے ہوئے صبرو تحمل ،محبت و دل جوئی کے حسین ترین جوہر دکھلائے اور ان کے تخلیقی مزاج کا لحاظ کرتے ہوئے ان کی اصلاح کی۔
۲۔نسوانی کردار: جس نے تقویٰ و احسان کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے نازک نسوانی نفسیات کا کھلی آزادی سے اظہار کیا اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے شوہر کے لیے اطاعت و سپردگی ،درستگی اوررفتگی پر آنچ نہ آنے دی۔
پہلا کردار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس تھی اور دوسرا کردار امہات المؤمنین کی وہ مبارک جماعت تھی جس کا چناؤ خود باری تعالیٰ نے کیا تھا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گھر یلو محبوبانہ زندگی فقط مثال ہے ،کبھی کسی بیوی کے لیے زبان مبارک سے تلخ جملہ نہیں نکالا،برابری و مساوات کا بڑالحاظ رکھتے تھے حالاں کہ یہ حکم آپ کے لیے نہ تھا۔روزانہ عصر کے بعد تمام ازواج مطہرات کی خبر گیری فرماتے ،روزانہ رات کا کھانا سب کے ساتھ تناول فرماتے ۔دلجوئی کا یہ عالم تھا کہ امی عائشہؓ کے ساتھ دوڑ کا مقابلہ کیا،ایک بار وہ جیت گئیں تو دوسری بار آپ جیت گئے،پھر مسکراتے ہوئے فرمایا کہ یہ اس جیت کا بدلہ ہے۔ اپنی دلچسپی نہ ہونے کے باوجود امی عائشہؓ کی دلچسپی کی وجہ سے انہیں دیر تک حبشیوں کے کھیل دکھاتے رہے ۔اورتو اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ڈر سے بھاگ جانے والی امی عائشہؓ کی سہیلیوں کو آپ خود لے کر آتے تاکہ وہ امی جان کے ساتھ کھیلیں ۔دل لگی کی مثال خود امی عائشہؓ کی زبانی ملاحظہ کریں، فرماتی ہیں :’’ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں نکلے جب ہم مقام قاحتہ میں پہنچے تو میں نے نکلتے وقت جو پیلے رنگ کی خوشبو سر میں لگائی تھی ،وہ پھیل کر چہرے پر آگئی تھی تو آپ ؐؐ نے فرمایا: اے صفیراء! اب تو تمہاری رنگ بہت اچھی لگ رہی ہے‘‘ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم ازواج مطہرات کی محبوبانہ خفگی کو بھی ملحوظ رکھتے تھے ،ایک مرتبہ کسی معاملے میں امی عائشہؓ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ’’اِقصد‘‘’’ٹھیک ٹھیک کہنا‘‘کہہ دیا تو ابو بکر صدیقؓ نے ایک زناٹے دار تھپڑ انہیں مارا، تو امی جان کی ناک سے خون بہنے لگا،تو حضور ؐ اپنے ہاتھ مبارک سے خون دھورہے تھے اور فرما رہے تھے ’’ہم ہر گز یہ نہیں چاہتے تھے‘‘۔ذرا دیکھیں تو سہی کہ’’اقصد‘‘کی سلوٹوں میں محبوبانہ خفگی کی جونزاکتیں یہاں تھیں انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کون پہنچان سکتا تھا۔تبھی تو شفقت اور پیار سے خون دھو رہے تھے ۔
اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات کے سو کنانہ مزاج کو کبھی نظر انداز نہ کیا یہی وجہ تھی کہ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم امی عائشہؓ کے گھر تشریف لے گئے تو امی جان نے پوچھا کہ سارا دن کہاں تھے تو فرمایا کہ ام سلمہؓ کے یہاں تھا ،تو آپؓ نے فرمایا کہ ام سلمہؓ سے آپ کا جی نہیں بھرتا؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف مسکراہٹ سے جواب دیا۔آپؐ کے معاملات میں آپ ان سے باز پرس کرتے ۔ایک بارجب امی عائشہؓ نے امی صفیہؓ کے چھوٹے قدکی طرف اشارہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تنبیہ فرمائی ۔اسی طرح حضرت زینبؓ سے کسی معاملے میں ناراض ہوئے پھر کئی دن تک بات نہ فرمائی ۔غرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی کے ہر گوشے پر نظر رکھ کر بہترین اسوۂ حسنہ امت کو ودیعت کیا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیکھا دیکھی صحابہ میں بھی ازدواجی زندگی کا خوشگوار ماحول بننے لگا ۔یوں اس میں دو رکنی بندھن سے میدان کے شہ سواروں ،ایک ایک سنت کے لیے مرمٹنے والوں نے جنم لیا اور بالآخر اسلامی معاشرہ ترقی کرتا کرتا اوج تک جا پہنچا اور چار دانگِ عالم اس کا چرچہ ہونے لگا۔
Subscribe to:
Posts (Atom)