Wednesday, 6 December 2017

خوشبو امان اللہ باجوڑی ,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,, bajauri9292@gmail.com ,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,, خوشبو کی مہک در حقیقت انسان کے باطن کا آینہ دار ہوتاہے،خوشبو سے انسان کی شخصیت آشکارہ ہوتی ہے۔خوشبو سے دماغ کو سکون ملتا ہے۔اچھی خوشبو لگانے والے کو بہت کم ذہنی اذیت اور دماغی بوجھ کا احساس ہوسکتا ہے،ایسا آدمی ٹینشن جیسے ابتلاء سے دو چار نہیں ہوتا اور سب سے بڑھ کر خوشبو ہمارے پیارے رسول ﷺ کی پسندیدہ سنت و عادت رہی ہے۔ ابتدائے اسلام میں خوشبو کی بہت زیادہ تاکید فرمائی گئی تھی،جس کی اصل وجہ لوگوں کو آرام پہنچانا تھا،کیو ں کہ اس زمانے میں صحابہ کرامؓ انتہائی مفلسی کا شکار تھے،غربت و ناداری کا دور تھا ،ٹاٹ کے موٹے موٹے کپڑے زیبِ تن کرتے تھے،خود مدینہ میں پانی کی شدید قلت تھی ،صحابہ کرام دن بھر محنت مزدوری کرنے کی وجہ سے پسینہ سے شرابور ہوجاتے تھے۔وہی ایک ہی ٹاٹ کی چادر ان کاکل سرمایہ ہوتا تھا ،سب لوگ مسجدِ نبوی میں نماز پڑھنے کے لیے آجاتے،تب تک مسجدِ نبوی کی چھت بہت نیچے تھی،اس لیے ﷺ نے کچا پیاز اور لہسن کھانے کے بعد بھی مسجد آنے منع فرمایا تھا تا کہ اس کی بد بو سے دوسرے بھائیوں کو اذیت کا سامنا نہ کرنا پڑھے ۔اور عطر لگا کر آنے کی بہت تاکید فرمائی،خاص کر جمعہ کے دن جب بہت پڑا اجتماع ہوتا ہے اس موقع پر خاص تاکید فرمائی۔آپ ﷺ کو خود بھی خوشبو سے بے حد لگاؤ تھا۔حضرت عائشہؓ فرماتی ہے کہ’’میں آپ ﷺ کو بہترین خوشبو لگایا کرتی تھی،یہاں تک کہ خوشبو کا نشان داڑھی اور سر مبارک پر ہوتا۔(مشکوۃ شریف ص۳۸۱) آپ ﷺ کا معمول تھا کہ قول سے زیادہ اپنے عمل سے صحابہ کو عمل کی تلقین فرماتے تھے۔چناں چہ آپ ﷺ کا معمول تھا کہ جب تہجد کے لیے بیدار ہوتے تو (اولاََ)استنجاء اور وضو فرماتے ،پھر ازواجِ مطہرات کے گھر کسی کو عطر حاصل کرنے کے لیے بھیج دیتے(مسند بزار) خوشبو سے لگاؤ صرف آپ ﷺ ہی کو نہیں تھا بلکہ تمام انبیاء خوشبو کا استعمال کرتے تھے۔ایک حدیث میں ہے کہ چار چیزویں انبیاء کی عادتوں میں سے ہیں:۱)ختنہ کرنا۲)مسواک کرنا۳)عطر لگانا۴) نکاح کرنا(سیرۃ الشامی)یہی وجہ ہے کہ جب کوئی آپ ﷺ کو عطر ہدیہ کرتے تو آپ اسے واپس رد نہ فرماتے اور یہی حکم امت کے لیے بھی ہے کہ جب عطر پیش کیا جائے تو اسے رد نہ کیا جائے۔ احادیث کی کتابوں میں خوشبو کی بہت زیادہ فضائل وارد ہوئے ہیں ،لیکن ہر اس چیز کو خوشبو نہیں کہا جاتا جسے لوگ خوشبو کہتے ہو ۔بد بو اور خوشبو میں فرق کرنا ضروری ہے۔آپ ﷺ کو بھی بدبو سے انتہائی درجہ کی نفرت تھی،اس لیے آپ نے ’’عود‘‘ کی خوشبو میں سے قماری کو زیادہ پسند کیا ،قماری ہندوستان میں پیدا ہونے والی اعلی قسم کی خوشبو ہے۔اسی طرح آپ ﷺ کبھی خالص عود اور کافور ملا عود کو جلا کر بھی خوشبو حاصل کر لیتے تھے جیسے کہ آج کل اگر بتی کو جلا کر خوژبو حاصل کی جاتی ہے،لہذا اگر بتی کا مستحب ہونا بھی ثابت ہوا۔اس کے علاوہ مشک کی خوشبو آپ ﷺ کو بہت پسند تھی ،حنا کے متعلق فرمایا کہ ’’یہ خوشبو جنت کی خوشبو کے مشابہ ہے‘‘اور ایک دفعہ فرمایا کہ ’’لوگوں کا اکرام کیا کرو اور افضل طریقہ اکرام کا عطر کے ساتھ ہے‘‘۔ آج کل خوشبو کا حصول بہت اسان ہوچکا ہے،اچھی خوشبو کا حصول اب کچھ مشکل نہیں رہا۔لیکن ایک بات ضرور یاد رکھیں کہ عطر سے مقصود دوسروں کو بھی راحت پہنچانی ہے،بہت تیز یا غیر خوش نما خوشبو سے دوسروں کو راحت کی بجائے اذیت ہوگی۔اس لیے عطر کا انتخاب کرتے وقت لوگوں کی راحت و آرام کا ضرور خیال رکھیں، تاکہ آپ کی وجہ سے کوئی شخص اس عظیم سنت سے روگردانی نہ کرے بلکہ کوشش یہ ہو کہ وہ بھی اس طرف مائل ہوجائے۔اللہ تعالی عمل کی توفیق عنایت فرمائے،آمین۔
عطائے خداوندی.................................................................................................,, ربیع الاوّل کا مبارک مہینہ وہ عظیم موقع ہے جس میں آج سے چودہ سو اکیانوے سال پہلے بی بی آمنہ کے دُرِّ یتیم ،عبدالمطلب کے نورِ چشم ،بیواؤں اور یتیموں کے ماواوملجااور اخلاق حسنہ کے عظیم پیکر نے ذبیح الثانی کے گھر میں آنکھ کھولی۔تب ایک نور چمکا ،ستارے سجدہ شکر ادا کرنے کیلئے زمین کو چومنے لگے ،ایک زلزلے سے کِسری کے چودہ کنگرے گر گئے،فارس کا آتش کدہ بجھ گیا ،قصرِ کسری کی سطوت پارہ پارہ ہوگئی،فراعنہ وقت کی کشتیاں ڈوبنے لگیں ،شیطان نے سر پر مٹی ڈالی ۔لیکن آنے والے آ چکے تھے ،ابو لہب کی باندی ثوبیہ کو آزادی مل چکی تھی ،جناب عبداللہ کا ذبیح اللہ ثانی بننے کا راز کھل چکا تھا،حلیمہ کی خوش بختی یقینی بن چکی تھی ،اہل مکہ کو آپس کے فیصلوں اور امانتوں کیلئے صادق و امین مل چکا تھا ، دنیا بھر کی انسانیت کے عظیم مبلغ کی نشونما شروع ہو چکی تھی اور ریاست مدینہ کا سپہ سالار آج ۵۷۱ء کوآمنہ نے گود لے لیا تھا۔ آپ کی تشریف آوری دنیا بھر کے انسانوں کیلئے خدا کا عظیم تحفہ تھا،کیوں کہ اس وقت کوئی مذہب اپنی اصلی حالت پر موجود نہ تھا،دنیا سے علم وعرفان عنقاء ہو چکا تھا،حتی کے فارس کے سلمان کو صرف چار ہی ایسے لوگ مل سکے جن میں علم کی رقم باقی تھی ۔اقوام عالم کی حالت یہ تھی کہ دینِ مسیحیت کا باقی رہنے والا ہلکا سا خاکہ بھی "سینٹ پال " نے خرافات سے بدل ڈالا تھا ،ادھر رومی سلطنت فطرت مسیح کے اختلاف پر باہم دست و گریباں تھی ،محصولات سے تنگ آکر علاقائی حکومتیں پروان چڑھ رہی تھیں ،اہل یورپ تمدنِ انسانی سے الگ تھلگ جہالت میں پڑے ہوئے تھے ،یہود کے پاس دینی سرمایا موجود تھا مگر غلامی نے ان میں بے جا غرور ،تکبر اور حوص کو کوٹ کوٹ کر بھر دیا تھا،ایران (جو تمدن دنیا پر فوقیت رکھتا تھا) شاہ پرستی ،قوم پرستی اور اتباعِ خواہشات نے انہیں اصلاحِ معاشرہ سے غافل رکھا اور خود عربوں میں جہالت ،ڈاکہ زنی اور شراب نوشی عروج پر تھی۔ان کی جاہلیت کے متعلق حالی کہتا ہے۔ نہ واں مصر کی روشنی جلوہ گر تھی نہ یونان کے علم و عرفان کی خبر تھی وہی اپنے فطرت پہ طبع بشر تھی خُدا کی زمین بن جتی سربسر تھی عرب کی مذہبی حالت کچھ یوں تھی۔ کہیں آگ بجھتی تھی واں بے محابا کہیں تھا کواکب پرستی کا چرچا بہت سے قصے تثلیث پر دل سے شیوا بتوں کا عمل سو بسو جا بجا تھا یقیناً اس وقت معاشرے کو ایسی معاشرت ،سماج ،عدالت اور قوانین کی بنیادوں پر قائم کرنے کی ضرورت تھی جس کی آبیاری ایمان کی حرارت سے ہوئی ہو،جس میں معاشرہ ایک ذات اور ایک مرکز کا پابند ہو ،یہی سبب تھا اللہ تعالی نے اپنی چیدہ ہستیوں میں سے آپ ﷺ کو چن کر مبعوث فرمایا۔ یکا یک ہوئی غیرت حق کو حرکت بڑھا جانبِ بو قبیس ابرِ رحمت ادا خاکِ بطحا نے کی وہ ودیعت چلے آئے تھے جس کی دیتے شہادت ہوئی پہلوئے آمنہ سے ہویدا دعائے خلیل اور نوید مسیحا آپ کے اسوۃ کو تاقیامت انسانوں کیلئے بہترین اسوۃ قرار دیا۔صحابہ کرام نے آپ ﷺ کے ہر قول و عمل کو محفوظ کیا ۔دنیا میں بڑی بڑی شخصیات آئیں ،مگر اُن کی سیرت ہم سے مخفی رہی،ہمیں انبیاء کرام کی بہت کم معلومات حاصل ہے ۔اسکندر، فیثا غورث اور ابن سینا کی زندگیوں کے کتنے گوشے ہیں جس کا ہمیں کچھ بھی علم نہیں۔لیکن حضور ﷺ کے نہ صرف معرکے محفوظ ہیں بلکہ آپ ﷺ کی داڑھی میں سفید بالوں کی تعداد ،چہرے کاخدوخال ،بالوں کا انداز ،گھریلو زندگی اور چھوٹے چھوٹے آداب سب محفوظ ہیں ۔آپ کی سیرت سے ہمیں قریش کے نسب نامہ کا علم ہوا ،حلیمہ اور آمنہ کو احوال معلوم ہوئے اور مکہ کی تمدنی و اخلاقی تاریخ کا علم ہوا۔یہ ایک عظیم عطائے خداوندی تھا،اللہ کی نعمتوں کی آخری انتہا تھی کہ آپ کی تشریف آوری سے انسانوں کو تمدنی اصطلاحات معلوم ہو گئیں،اپنوں اور غیروں سے متعلق کا علم ہوا ،چھوٹے اور بڑوں کے حقوق کا علم ہوا،دنیا میں عظیم انقلاب برپا ہواافلاطون کا نظریہ قتل و غارت (مفلوج) ہوگیا۔انسانیت امن کے زاویوں سے ہمکنار ہوئی۔انسانوں کی بھنور میں پھسی کشتی ساحل پر لنگر انداز ہوئی ۔دنیا میں علوم و فنون کا عظیم انقلاب برپا ہوا،کیونکہ ؂ یہ کہہ کر کیا علم پران کو شیوا کہ ہیں دور رحمت سے سب اہل دنیا مگر دھیان ہے سب کو ہر دم خدا کا ہے تعلیم کا یا سوا جن میں چرچا انہیں کیلئے یاں ہے نعمت خدا کی انہیں پر ہے واں جاسح رحمت خدا کی آپﷺکے بچپن سے وفات تک کی پوری زندگی وہ عظیم گلدستہ ہے جس میں تاقیامت انسانوں کیلئے سبق موجود ہے،آپ کو امین وصادق کہلانے سے لیکر دربار قیصر میں ابو سفیان کی گواہی تک،طائف کے زخموں سے لیکر فتح مکہ کی عزیمتوں تک اور پیدائش سے لیکر وفات تک آپﷺ کی سیرت کے بے شمار پہلو ایسے ہیں جس پر ہزاروں کتابیں لکھ چکنے کے بعد بھی کسی نے حق کی ادائیگی کا دعوی نہیں کیا۔ اللہ تعالی ہمیں اسوۂ رسول اکرم ﷺ پر پوری طرح عمل پیرا ہونے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین